4 تبصرے

پھر وہی روزنامچہ

جانے کب تک معمولات معمول پر نہیں آتے لیکن ہم اپنی سی کوشش کر دیکھتے ہیں، روابط بحال ہوں زندگی پرانی ڈگر پر واپس آجائے
گو کہ پھر بہت سا پانی بہہ چکا ہے کچھ پلوں کے نیچے سے اور کچھ پُلوں کو بھی بہا لے گیا اب پرانا وقت تو لوٹ آنے سے رہا اسی نئے وقت کو اپنی کاہلی اور ناکردگی سے زنگ لگاتے ہیں یہی پرانے سے بھی زیادہ بوسیدہ ہو جائے گا۔ 
لیکن اس سے پہلے احوال کہ نٹ دوستوں کے روزمرہ سے تو کافی واقفیت رہی مگر خود میں غائب رہا وجہ کچھ ملازمت کا شیڈول تبدیل ہوگیا پہلے جو ماہ بماہ پاکستان جاتے تھے وہ سلسلہ موقوف ہوا اب مستقل دوہا ہی جائے رہائش ٹھہری اور اہلِ خانہ کو بھی اسلام آباد سے یہیں منتقل کردیا۔  اسلام آباد والے گھر کو سمیٹنے بلکہ سارا سامان اور گاڑی صرف ایک ماہ کے قلیل وقت میں بیچنے میں ہم لوگ کامیاب نا ہوتے اگر ہمارے اہلِ محلہ ہماری مدد نا کرتے شکریہ ان تمام لوگوں کا جو اس آڑے وقت میں کام آئے۔
میرے بچے 2005 تک یہاں رہ کر گئے تھے واپس آئے تو جو تبدیلی انہوں نے محسوس کی پہلی تو عمارتیں بے تحاشہ بن گئیں ہیں دوسری جہاں جی ایم سی کی پیلی بسیں استعمال ہوتی تھیں وہاں ٹاٹا کی بھرمار ہے اور عام زندگی کے شعبوں میں انڈین افرادی قوت کے اضافے کے ساتھ حیرت انگیز طور پر فلپائنی بہت ہی زیادہ بڑھ چکے ہیں اس تناسب سے پاکستانی بہت ہی کم ہوئے ہیں۔
ہم خود کو جو طفل تسلیاں دیتے رہیں لیکن ہمارے مستقل حالتِ جنگ میں رہنے کے کچھ اور نقصانات بھی سامنے آرہے ہیں مثلاً وسط ایشیاء کی ریاستیں ( ترکمانستان، آذربائیجان ) تیل کی ترسیل کے لیے ایران اور مشرق وسطٰی کی طرف دیکھ رہی ہیں کہ افغانستان کے مسئلے نے تو حل ہونا نہیں ہے گوادر کو سمیٹ رکھیے ہمیں راہداری ایران ، قطر اور عمان دے گا ( بحوالہ گلف ٹائم 26 اپریل )گویا
مرے تھے جن کے لیے وہ رہے وضو کرتے 
اور بھئی لڑتی بلیوں کی روٹی ہمیشہ بندر ہی کھاتے ہیں۔

4 comments on “پھر وہی روزنامچہ

  1. آپ تجزيہ درست ہے ۔ يہاں کسی کو مال سميٹنے سے فرصت نہيں تو کسی کو دوسرے کی ٹانگ گھسيٹنے سے

  2. لڑتی بلیوں کی روٹی ہمیشہ بندر ہی کھاتے ہیں۔
    بے شک ایسا ہی ہوتا ہے

  3. انڈیننز میں اتفاق بہت ہے
    جب مشرف نے اقتدار پر قبضہ کیا تھا تبھی سے انڈیا نے بہت ترقی کی ہے بین الاقوامی طور پر بھی اس کا قد کاٹھ بڑھا ہے

Leave a reply to Darvesh Khurasani جواب منسوخ کریں