ہمارے یہاں چاہے گھریلو محافل ہوں دوست باہمی طور پر ملیں یا کام کے درمیانے وقفوں کی گپ شپ، غالب گفتگو بلکہ مباحث کا موضوع سیاست ہی ہوتا ہے اور سیاست میں بھی شخصیات ہی موضوع سخن ہوتی ہیں پھر یہاں وطن اور عملی سیاست سے دوری کے باعث ٹی وی چینلز اور اخباری کالم نویس ہی منبع علم ہیں اور اپنی علمیت بگھارنے کے لیے انہی کے الفاظ کی جگالی ہو رہی ہوتی ہے اور پیچھے اس امام کے والی بات ہی ہے کہ میڈیا جو کچھ دکھا رہا ہے اور جو تاثر دینا چاہتا ہے یار لوگ وہی اپنا رہے ہیں۔
اپنے دکھ سکھ کے ساتھیوں اور قریبی دوستوں کی دل آزاریاں صرف اس لیے کئے جاتے ہیں کہ وہ میرے ہیرو کو اپناتا نہیں ہے ایک ایسی شخصیت کے لیے اپنے خیر خواہوں کو ناراض کرتے ہیں جنہیں نا تو ہمارے وفادارہونے کا پتہ ہے اور نا ہی پرواہ۔
جانے یہ ہیرو پرستی کی نفسیات ہے؟ یا عزت نفس کی کمی ہے کہ سیاسی لیڈروں کی پوجا ہو رہی ہے! کارکردگی دیکھیے اگلی دفعہ چنیے نہیں تو دوسرے کو موقع دیجیے۔ ان کی ذاتی شان وشکوہ اور آن بان سے ہمیں کیا لینا دینا؟ یہ سارے ہتھیار تو شاہی دور کی کہانیاں ہیں کہ حکمرانوں کو عام انسانوں سے ماوراؑ ہستیاں ثابت کیا جاسکے اور انکا حق حکمرانی ثابت کیا جائے۔
شاید ہمارے پاس مشترکہ موضوعات کی بھی کمی ہے یا علم نہیں ہے کہ گھوم گھام کر سوئیاں مزہب اور سیاست پر جا اٹکتی ہیں اور دونوں جگہ ہی پانی میں مدھانی چلانے والی مثل صادق آتی ہے۔ یارو اپنے آس پاس والوں کا سپاس کرو سیاسی وابستگی اور مزہبی عقیدے سے بڑھ کر انسانیت بھی کوئی شے ہے ۔
دنیا جہاں کی باتیں ہو سکتی ہیں نئے نظریات، سائنسی ایجادات، معاشرتی مسائل، سیر وتفریح اور سب سے بڑھ کر کھانا پکانے کی ترکیبیں جانے کیوں گھوم گھام کر سیاسی لوگوں پر بات کر کے ہم اپنا قیمتی وقت اور دوستیاں ضائع کرتے ہیں –