ایک تو نائٹ شفٹ کی تکان اوپر سے پلانٹ سے نکلتے ہوئے یہ دُکھ بھری خبر کہ میرے ہم پیشہ 20 افراد اپنی روزی کمانے گھر سے نکلے تھے لیکن وہاں جا پہنچے جہاں جاکر واپس نا آیا کوئی
وہ بھی اپنے دوستوں گھر والوں سے کہہ کر گئے ہوں گے کہ بس چودہ ہی تو دن کی بات ہے لیکن یہ چودہ دن تو معلق ہی ہوگئے ہیں کبھی ختم نہ ہونے والا انتظار شروع ہوگیا۔
آئل فیلڈ کی ملازمت جہاں دوسروں کے لیے قابلِ رشک ہوتی ہے وہیں کام کرنے والوں کو پتہ ہوتا ہے کہ ہم ایک خفتہ آتش فشاں کے پیٹ میں سے ہیرے نکالتے ہیں ذرہ برابر غلطی اور یہ دیو جاگ جائے گا پھر مفر ممکن نہیں
لیکن یہ بھلے لوگ تو راستے ہی میں کسی دوسرے کے شارٹ کٹ، قصداً یا سہواً غفلت کا شکار ہو گئے، جانچ پڑتال کرنے والوں نے سوچا ٹھیک ہی ہوتا ہے یا پھر علم ہونے کے باوجود سینسر یا پرزہ “ پھر تبدیل کر لیں گے“ ارے کچھ نہیں ہوتا“ یا پھر “ سر یہ پاکستان ہے ایسا ہی چلتاہے اتنے چکر لگا چکا ہے کچھ نہیں ہوا“ لو میرے جیسے انجینئرو اور ٹیکنیشنو جس کو تم روک سکتے تھے وہ حادثہ ہوگیا اب کبھی ان خاندانوں سے آنکھ ملا پاؤ گے جن گے پیارے اس دنیا سے صرف اس لیے چلے گئے کہ تمہاری چائے ٹھنڈی ہورہی تھی یا پرواز روک دینے پر بڑے صاحب کی سننی پڑتیں لیکن ان خاندانوں پر تو قیامت نا ٹوٹتی۔
کل ہی سنگاپور میں 450 مسافروں کے ساتھ آسٹریلین ایر بس نے ہنگامی لینڈنگ کی اور تمام مسافر بخیریت رہے اس کے بعد کنتاس نے اپنے پورے بیڑے میں شامل ایربس 380 کی پروازیں جانچ پڑتال کے لیے روک دیں ہیں۔
ہم نے ایر بلو کے حادثے سے کیا سیکھا؟
بھِٹ ضلع دادو کے گیس پلانٹ میں میرے تو نہیں لیکن میرے کئی جاننے والوں کے دوست کام کرتے ہیں آج ان سب کے لیے دل انتہائی افسردہ ہے کاش اس ہونی کو کوئ ٹال دیتا لیکن کاش تو پھر کاش ہے اس کے ذریعے ہم اپنی کوتاہیوں اور نااہلیوں کو تھپکیاں دیتے ہیں۔
ایک اور حادثہ
بوٹسوانا کا مسافر
میں عمومًا آن لائن ہی چیک ان کرتا ہوں اور میری کوشش ہوتی ہے کہ کھڑکی کی طرف والی سیٹ لوں کہ ہمراہی کو نقل و حرکت کی اور مجھے آرام کی آزادی رہے لیکن اس دفعہ جانے کیوں میں نے اگلی جانب راہ داری کی نشست کو منتخب کیا۔ دوحہ کیونکہ قطر ایر ویز کا بیس اسٹیشن ہے اس لیے دنیا جہاں سے مسافروں کو پہلے یہاں لایا جاتا ہے پھر اگلی منزلوں کو اڑان بھری جاتی ہے اسی لیے قطر میں پاکستانی نسبتًا کم ہونے کے باوجود کراچی اسلام آباد آنے والی کوئی بھی پرواز خالی نہیں ہوتی اور دور دراز والے لوگوں سے ہمسفری کا موقع ملتا ہے۔ میں ابھی نشست پر بیٹھا ہی تھا کہ چھوٹی چھوٹی داڑھی (پاکستانی مارکہ) والے ایک صاحب جنکی عمر 40 بیالیس کے لگ بھگ ہوگی تشریف لائے میری ساتھ والی نشست پر بیٹھنے کے لیے۔
جب میں نے انہیں آگے بڑھنے کے لیے راستہ دینا چاہا تو انہوں نے پیشکش کی کہ اگر آپ کونے پر بیٹھنا چاھیں تو کوئی حرج نہیں۔ یہ عمران صاحب تھےجن سے تعارف کے بعد بات چیت شروع ہوئی تو پتہ چلا کہ جنوبی افریقہ کے پڑوسی ملک بوٹسووانا سے آرہے ہیں ان کا وہاں بیڈنگ (ٹیکسٹائل) کا کاروبار ہے چھ سال سے جنوبی افریقہ میں کوشش کی اور پھر اب دوسال سے کہیں جاکر بوٹسووانا میں سیٹ ہوئے ہیں اور خاندان بھی ہمراہ ہے۔ میرے کچھ ساتھی جنوبی افریقہ اور موزمبیق سے تعلق رکھتے ہیں ان کے حوالے سے مجھے کچھ تو معلومات تھیں لیکن ایک پاکستانی سے وہاں کے حالات جاننے کی بات ہی کچھ اور ہے اس لیے اب گفتگو شروع ہوئی تو اسلام آباد لینڈنگ کے وقت ہی جاکر سلسلہ ختم ہوا۔
پہلی بات جو اُن سے پوچھی وہ جنوبی افریقہ کی یونیورسٹی کے حوالے سے تھی کہ میرے ایک دوست اپنی دو بیٹیوں کو وہاں تعلیم کی غرض سے بھجوانا چاہ رہے ہیں وہاں امن امان کی کیا صورتحال ہے آیا اکیلی بچیاں وہاں اپنی تعلیم جاری رکھ پائیں گی؟ پہلے تو انہوں نے چھوٹتے ساتھ ہی کہہ دیا کہ نا بھئی نا وہاں کلب ہیں کیسینو اور شراب خانے ہیں۔
لیکن عمران صاحب یہ سب تو یوکے امریکہ میں بھی ہے آپ سلامتی کے حوالے سے بتائیں؟
پہلے حالات بہت خراب تھے اب بہت تبدیلی ہے جنسی ہراسمنٹ نہیں ہے ہاں لوٹ مار ضرور ہوتی ہے سگنل پر کھڑی گاڑی سے موبائل پرس وغیرہ چھین لے جاتے ہیں۔ پھر کہنے لگے کہ اگر سوشل نا ہوں تو کوئی خطرہ نہیں ہے اپنی اسلامی کمیونیٹی بہت مضبوط ہے۔
پہلے تو جنوبی افریقہ جانے کے لیے ویزہ بھی نہیں لینا ہوتا تھا ایرپورٹ پر آمد کے وقت ہی ویزہ لگا دیتے تھے لیکن پھر کراچی میں آپریشن ہوا اور اپنے بھائی لوگ بھی وہاں بھی پہنچ گئے۔
انہوں نے ایسا کیا کردیا( میں بھی بھولا بَن گیا)؟
ان میں سے جو پڑھے لکھے تھے انہوں نے تو جنوبی افریقہ کا پاسپورٹ پکڑا اور کینیڈا اور آسٹریلیا چلے گئے جو یہاں رہ گئے وہ لوٹ مار میں کالوں سے بھی آگے ہیں۔ خوجہ برادری (میمن) جنوبی افریقہ میں عشروں سے رہ رہے ہیں اور انکے کاروبار بھی جمے جمائے ہیں پاکستان اور انڈیا دونوں سے تجارتی روابط ہیں یوں کاروباری برادری میں نمایاں نظر آتے ہیں گو کہ سیاسی جھگڑوں سے دور رہتے ہیں لیکن کراچی سے روابط کی وجہ سے انہی لوگوں نے بھائیوں کی مدد بھی کی اور اب بھائی لوگوں کا تر نوالہ بھی بنے ہوئے ہیں۔
باقی اندرونِ ملک سے گجرات، پنڈی بھٹیاں سے بھی تو لوگ آتے ہوں گے وہ ساؤتھ افریقہ میں کیا کرتے ہیں کیا وہ لوگ ان جرائم میں شامل ہوتے ہیں یا کوئی اور کام؟
انکے لیے یہ پڑاؤ ہے، ایجنٹ پیسے لیکر انہیں یہاں لاتے ہیں پھر کاغز وغیرہ بنوا کر یورپ بھجوادیتے ہیں یہاں کام ملنا تو مشکل نہیں ہے لیکن جو بندہ ولایت کے لیے گھر بار چھوڑ کر آتا ہے وہ بھلا یہاں کہاں رکے گا۔
کام کیسے ملتا ہے خود افریقی اتنے زیادہ ہیں؟
بھائی صاحب بوٹسوانا کی مثال دیتا ہوں کہ کالے کام کرتے نہیں لوگ انڈین کو ملازمت دینا پسند کرتے ہیں لیکن گورنمنٹ کی سختی ہے کہ مقامی افراد کو رکھنا ہی رکھنا ہے چاہے بٹھا کر کھلاؤ۔ پھر ایڈز بہت زیادہ ہے اس کی وجہ سے مردوں کی شرح اموات زیادہ ہے۔
پھر ذراء جوش سے بولے بوٹسوانا میں آپ کو موٹر مکینک تک عورتیں ہی ملیں گی کہ تنہا مائیں ہیں اور بچے پال رہی ہیں۔
اچھا آپ یہاں قطر کی سنائیں آپ تو اسلامی ملک میں رہتے ہیں۔ یہاں کم از کم چوری چکاری کا تو آرام ہے پھر بچوں کی تعلیم کا مسئلہ ہے۔
عمران صاحب میں نے تو سنا ہے کہ کمیونیٹی کے اسلامی اسکول ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ہاں جیسے نور اسکول سسٹم (نام کچھ ذہن سے محو ہوگیا ہے)جہاں باقی تمام بچے بھی پڑھتے ہیں لیکن دوپہر میں چھٹی ہونے کے بعد صرف مسلمان بچوں کو روک لیتے ہیں اور دو گھنٹہ
دینی تعلیمات دیتے ہیں ظہر کی نماز بھی وہیں ہوتی ہے تو بچوں کی عملی تربیت بھی ہوجاتی ہے ۔
آپ نے بتایا کہ انڈیا سے کافی لوگ ہیں وہاں ؟ بوٹسوانا نے انڈیا، پاکستان، سری لنکا وغیرہ سے انگلش سکھانے کے لیے ٹیچر مانگے تھے پاکستان سے تو کوئی نہیں پہنچا ہاں انڈیا نے پوری کھیپ بھجوادی اور آج اسکا پھل کھا رہے ہیں۔تجارت، دفاتر ٹرانسپورٹ ہر جگہ آپ کو انڈین ملے گا اور مصنوعات تو پھر ہوں گی ہی انڈیا کی۔
اچھا عمران صاحب پاکستانی تو پھر کافی کم ہوں گے تو میل جول اور تقریبات وغیرہ بھی نہیں ہوں گیں؟
بوٹسوانا میں پاکستانی کم ہیں ساؤتھ افریقہ میں کافی ہیں کچھ جان پہچان کے خاندان ہیں ان کے ساتھ مل بیٹھتے ہیں۔ بوٹسوانا میں انڈین کافی دوست ہیں ابھی بھی ہمارے پڑوس کی ہندو فیملی ہے انہوں نے باقیوں کے دیکھا دیکھی افطار پر مدعو کر لیا۔ اب ہماری یہ مشکل کہ کھانا کھانا اور بات ہے لیکن روزہ افطار کرنا عجب سا لگ رہا تھا گھر سے لیٹ نکلے اور راستے ہی میں کھجور سے روزہ افطار کر لیا۔ یوں تو کھانے کے معاملے میں بھی بہت صفائی پسند ہیں اور کہیں ہمیں برا نا لگے اس لیے میری بیوی کو شروع شروع میں بھابھی اپنے ساتھ کچن میں رکھتی تھیں اور دونوں مل کر پکاتیں تھیں اب بھی تسلی دے رہے تھے کہ گھر اور بچوں کی طرف سے بے فکر رہیں پردیس میں ہم زبان مل جانا ہی بڑی نعمت ہوتا ہے۔
پردیس میں بچوں کو اکیلے چھوڑ کر آنا بھی کافی مشکل ہے اب بھی مجھے ایک تو کاروبار کے لیے اور دوسرا اپنی بچی کی تعلیم کے لیے آنا پڑ رہا ہے کہ میڈیکل کالج وغیرہ خود دیکھ آؤں۔
میرے استفسار پر کہ کوئی ڈائرکٹ فلائٹ بھی پاکستان آتی ہے ساؤتھ افریقہ سے تو کہنے لگے کہ پاکستانی ایر پورٹس پر اگر پتہ چل جائے کہ میں افریقہ سے آرہا ہوں تو محکمہ صحت والے بہت تنگ کرتے ہیں اسی لیے گھوم گھما کر ہی آنا بہتر ہے۔
عمران صاحب کو چاول ، تولیے، ٹی شرٹس اور ہوزری آئٹم درکار تھے لیکن بی کوالٹی تاکہ مقامی مارکیٹ کی قوت خرید میں ہوں جب کراچی میں اپنے بھائی اور کزن وغیرہ سے میں نے معلومات کیں تو پتہ چلا کہ جناب فیکٹریوں میں الو بول رہا ہے مال بن ہی نہیں رہا تو سپلائی کہاں سے ہو؟
(یہ تحریر 2009 رمضان کی ہے )
کباڑ بازار (چاہ سلطان)
جیسے کراچی میں شیر شاہ گاڑیوں کے سیکنڈ ہینڈ پارٹس کے لیے مشہور ہے اسی طرح راولپنڈی اسلام آباد کے لیے چاہ سلطان (سلطان دا کھوہ) اور باؤ محلہ میں گاڑیوں کے تمام پرزہ جات مل جاتے ہیں رہ گئے دام۔ تو وہ تو پشاور سے لیکر کراچی اور لَنڈا بازار سے لیکر منگل بازار خان صاحب کا ایک ہی اصول دس ہزار مانگ کر سودا پچاس روپے میں بھی کر دینا ہے لیکن نہیں بول دی تو دو روپے کم پر بھی چیز نہیں دینی۔ تمام سامان گاڑیوں کے انجنوں سمیت پشاور سے اور پشاور میں جانے کہاں سے آتا ہے؟؟
سعودیہ اور قطر میں تصلیحہ (جنک یارڈ) ہوتے ہیں جہاں حادثات وغیرہ کی وجہ سے ناکارہ گاڑیاں کھڑی ہوتی ہیں آپ کو جو سامان چاہیے گھوم پھر کر اپنے ماڈل کی گاڑی دیکھیں سودا ہوا تو سوڈانی یا یمنی (پاکستانی بھی) مکینک وہ پرزہ آپ کو نکال دے گا آگے آپ کے نصیب۔
لیکن یہاں پاکستان کا معاملہ الگ ہے یہاں تو کوئی بھی گاڑی کبھی بھی ناکارہ نہیں ہوتی اس لیے پھر یہ انجن، گیئر بکس اور دیگر پرزہ جات کہاں سے آتے ہیں؟
بات گھوم پھِر کر وہیں آجاتی ہے کیونکہ خریدار موجود ہیں اس لیے سپلائی برقرار رہے گی چاہے میں ہینڈل لاک لگاؤں، سیکوریٹی سسٹم یا خود سیکوریٹی والا کھڑا کردوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(تصویر میں پرانے ٹائروں کو چمکا کر کابلی والے بنائے جارہے ہیں)
چلی کے 33 کان کن
چلی کے 33 کان کن 5اگست سے سطح زمین سے سات سو میٹر (پون کلومیٹر تقریبًا) گہرائی میں پھنسے ہوئے ہیں۔ جب کان بیٹھنے کا حادثہ ہوا تو ابتدا میں خدشہ ظاہر کیا گیا کہ شاید کوئی بھی زندہ نہیں بچا لیکن ان کان کنوں کے اہلِ خاندان اور دوستوں کو امید کی جوت ایک 63 سالہ کان کُن گومز کے پیغام نے جگائی کہ 33 لوگ زندہ ہیں پھر کہانی شروع ہوئی عزم اور جستجو کی ان کان کنوں کو واپس اپنے پیاروں سے بحفاظت ملانے کی۔ یہ کوئی آسان کام نہیں تھا کتنے خطرے کتنے ہی خدشے اس راہ میں حائل تھے ایک طرف امید و بیم کی سولی پر لٹکے ان کان کنوں کے اعزاء اور دوسری طرف 33 زندگیاں جن کی جسمانی اور نفسیاتی حفاظت مکمل طور پر درست ریسکیو کاروائیوں پر مشتمل تھی۔ سب سے پہلے تو ان محصور لوگوں کی ہوا اور غزا کا بندوست کیونکہ ابتدا ہی میں یہ بات واضح تھی کہ یہ کوئی ایک دو دن کی نہیں ہفتے کی نہیں بلکہ مہینوں پر محیط کاروائی ہوگی جس کے بعد ہی یہ لوگ بحفاظت اپنے پیاروں کو مل پائیں گے۔ پوری قوم نے پھنسے کان کنوں اور ان کے خاندانوں کا حوصلہ بڑھایا۔ اندر پھنسے کان کنوں سے کیمروں کے ذریعے ان کے پیارے مستقل رابطے میں رہے اندر موجود لوگ ایک دوسرے کا حوصلہ بڑھاتے رہے اور ساتھ ہی حکومت نے ان تمام کو قومی ہیروز کا درجہ دیا ساری قوم نے ان خاندانوں سے یکجہتی کا اظہار کیا تمام دنیا کے کان کنی کے ماہر اپنے تجربات اور مہارتوں کے ساتھ انکی مدد کو آئے۔ ایک طرف یہ پیشہ ورانہ کاروائیاں چلتی رہیں دوسری جانب لمحہ بہ لمحہ کا احوال اوپر خاندانوں اور نیچے محصور لوگوں تک آتا جاتا رہا دن رات کی پرواہ کیے بغیر دوست رشتہ دار مستقل رابطے میں ہیں۔
اب تک تو یہ کہا جارہا تھا کہ کرسمس سے پہلے ان لوگوں کی واپسی ممکن نہیں ہے لیکن کل 9 تاریخ کو ریسکیو ٹنل کامیابی کے ساتھ کان کنوں تک پہنچ گئی ہے گو کہ ابھی کئی مرحلے باقی ہیں۔۔۔۔
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک
زمین پر ایک خیمہ بستی آباد ہے 33 جھنڈے گویا آزادی کے پھریرے لہرا رہے ہیں یہ مہم انسانی عزم و ہمت کے لیے جہاں ایک چیلنج ہے وہیں اقوامِ عالم کے باہمی اتحاد و ربط کی بھی مثال ہے کہ ایشیا افریقہ امریکہ اور آسٹریلیاء سے پیشہ ورانہ امداد و مشاورت کیساتھ ریسکیو مشن چل رہا ہے۔
ٹائم لائن:
5 اگست سان جوس کی سونے اور تانبے کی کان میں 33کان کن سطح زمین سے 700 میٹر گہرائی میں پھنس گئے۔
22 اگست کو ایک پیغام موصول ہوا کہ ہم 33 ایک شیلٹر میں موجود ہیں۔ غذا اور طبی ترسیلات نیچے بھیجی گئیں۔
30 اگست اے ،بی، سی میں سے پہلی ریسکیو شافٹ بھیجنی شروع کی۔
5 ستمبر شافٹ بی کو منتخب کر کے کام جاری رکھا گیا۔
24ستمبر کو 50 دن پورے ہوئے۔
9 اکتوبر کو ریسکیو ٹنل کے لیے ڈرل کی گئی شافٹ کان کنوں تک پہنچ گئی۔
ٹریل 5 کی پہاڑی ندیاں
اسلام آباد کے ٹریکس پر تو پہلے بھی لکھ چکا ہوں، امسال بارشوں کے بعد جہاں پگڈنڈیاں بہہ گئیں تھیں وہ راستے تودوبارہ بنادیے گئے ہیں اور لوگوں کی آمد و رفت بھی بڑھ گئی ہے۔
تین چار ماہ سے جو خوبصورت ندیاں بہہ رہی ہیں وہ دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں شہر سے صرف چند کلومیٹر کی دوری پر ہمیں بالا کوٹ کے نظارے میسر ہیں۔اس رمضان ہم نے تو یہی معمول بنایا ہوا تھا کہ کچھ پھل اور کھجوریں ساتھ لیجاتے تھے اور نہانے دھونے سیر کرنے کے بعد روزہ وہیں افطار کرتے۔ ویک اینڈ پر تو کچھ اور خاندان بھی ایسا ہی کرتے تھے۔ اب پانی کا بہاؤ کچھ کم ہوچلا ہے لیکن ہفتہ عشرہ تو چلے گا۔
وادیِ اردو
جناب راشداشرف صاحب نے میرے کچھ صفحات پر تبصرہ کیا ہے ساتھ ہی اپنا تعارف بھی ارسال کیا تھا۔اس کے ساتھ ایک غمناک خبر بھی تھی کہ ریگل صدر کے فٹ پاتھ پر کتابیں بیچنے والے شمشاد صاحب گزر گئے ہیں۔ اللہ مرحوم کو جنت الفردوس میں جگہ دے عجیب قلندر صفت محنتی مرد تھا۔
راشد اشرف صاحب کے تبصرے کی رسید میں بوجوہ تاخیر ہوگئی انکا دیا گیا ربط جب دیکھا تو ابنِ صفی صاحب کے متعلق ایک خزانہ جمع کیا ہوا ہے نا صرف یہ کہ قدیم مواد بلکہ ابنِ صفی صاحب کے خانوادہ کا حال تک موجود ہے یعنی انکے بچوں (جو خود اب بچوں والے ہیں) کا احوال اور ابنِ صفی کی تصنیفات کا خزینہ انکی سائٹ (وادیِ اردو) کا ربط
جناب راشد اشرف کے نام حالی صاحب کا مصرع تھوڑی سی تصریف کے ساتھ
ہماری باتیں ہی باتیں ہیں راشد کام کرتا ہے
جذبہ کہاں گیا؟
جذبہ کہاں گیا؟
کئی دنوں بعد ایک ٹرک امدادی سامان لوڈ کرواتا نظر آیا وہ بھی ایک جاپانی تنظیم کی طرف سے تھا اور جاپانی صاحب خود کھڑے نگرانی کر رہے تھے۔
2005 کے زلزلے میں ایک اور ہی منظر تھا لوگ باگ گلی گلی محلے محلےامدادی اشیاء اکٹھے کر رہے تھے یا پھر خود رضا کار بنے کیمپوں میں مصروف تھے۔ سڑکوں پر امدادی سامان لے جانے والے ٹرکوں کا تانتا بندھا ہوا تھا۔ حکومت اور فوج کی طرف کوئی نہیں دیکھ رہا تھا
لیکن آج ایسا نہیں ہے کیا ہم بےحس ہوچکے ہیں یا کوئی اور وجہ ہے؟
شاید یہ وجہ ہے کہ پچھلے کئی سال سے مستقل موت کا رقص دیکھ رہے ہیں ،اک ہنگامہ شب و روز بپا ہے‘ پھر زلزلہ تو سب نے بھگتا تھا درودیوار سب کے لرزے تھے اسی لیے کسی کو کچھ زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں پڑی لیکن سیلاب جس نے آبادیاں نیست نابود کردیں اسکی مصیبت تو وہی جانے جنکی جان پر گزر رہی ہے۔
وہ بھی رمضان ہی کا مہینہ تھا اب بھی رمضان چل رہا ہے مگر فلاحی تنظیمیں نوجوانوں کو متحرک نہیں کر پا رہی ہیں اور جب تک نوجوانوں کو سامنے نہیں لایا جائے گا امدادی کام آگے نہیں بڑھے گا اور سب سے اہم عنصر کراچی کے حالات!
کراچی سے مسافر چلیں گے تو قافلے خود بخود تشکیل پائیں گے مگر شاید وہی بات ہے کہ
احساس زیاں جاتا رہا
رمضان کریم
تمام دوستوں کو رمضان کریم اور یوم آزادی مبارک ہو۔ انکو بھی جنکی آزادی سیلابوں نے سلب کر رکھی ہے اور انہیں بھی جو سدا سے آزاد ہیں کہ آزادی بھی ایک کیفیت کا نام ہے۔
مارگلہ ٹریلز
اسلام آباد میں تفریح گاہیں تو کافی ہیں لیکن مارگلہ کا قرب جہاں قدرتی حسن اور عمدہ موسم بخشتا ہے وہیں ایسی پگڈنڈیاں (ٹریلز) بھی فراہم کرتا ہے کہ جن پر چل کر آپ چند ہی منٹوں میں وال پیپرز کی حسین دنیا میں پہنچ جاتے ہیں۔ اس قدرتی حسن کو محفوظ رکھنے اور اسے عام لوگوں کی دسترس میں رکھنے پر میں نوکر شاہی اور پاک فوج کا جتنا شکریہ ادا نا کروں کم ہے( باقی شکوے اپنی جگہ قائم ہیں )۔ یہ پگڈنڈیاں تعداد میں کافی ہیں جنکے ذریعے مارگلہ کے حسن سے لطف اندوز ہوا جاسکتا ہے۔ میں ٹریل (پگڈنڈی) 3 اور ٹریل 5 ہی کےذریعے زیادہ تر مارگلہ کی سیر کرتا ہوں ٹریل 3 ہی زیادہ مقبول ہے شام کو اس کی پارکنگ فل ہوتی ہے اور پگڈنڈی پر سانسوں کی دھونکنی کا میلہ لگا ہوتا ہے( میک اپ زدہ چہروں پر بھی پسینے کی پگڈنڈیاں بنی ہوتی ہیں )۔
ٹریل 3 اور ٹریل 5 پر پہنچنا بھی نہایت آسان ہے پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے بھی پہنچا جاسکتا ہے کہ سید پور ماڈل ویلج سے ذرا آگے شالیمار کرکٹ گراؤنڈ کے بعد ہی ٹریل 3 شروع ہوجاتی ہے۔ ٹریل 5 کو درہ جانگلہ بھی کہتے ہیں یہاں ایک کیمپنگ سائٹ بھی بنائی گئی ہے اور ٹریل کے ساتھ پہاڑی چشمے اور شاندار قدرتی مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں جہاں ٹریل 3 کے ذریعے اسلام آباد کا نظارہ ہوتا ہے وہیں ٹریل 5 پر سفر کرتے ہوئے ہر موڑ پر فطرت ایک نیا جلوہ دکھاتی ہے اگر آپ رش کے اوقات سے ہٹ کر آئے ہوں تو وہ خوبصورت پرندے اور جانور بھی آپ دیکھ سکیں گے جو صرف چڑیا گھر میں دکھائی دیتے ہیں۔ ( کیمرے میں بھی قید کرنا انتہائی دشوار ہے ) ان جانوروں کے علاوہ رنگ برنگی تتلیاں اور انواع و اقسام کے نباتات اور درختوں کی بہتات ہے۔ وہ سنبل جس سے ہماری حکایات میں خارِ وطن خویش تر ہوتا ہے اسکا درخت بھی میں نے یہیں دیکھا اور ہم میاں بیوی نے اس کی روئی بھی جمع کی۔
تصاویر دیکھیے بلکہ سیر کیجیے سیکوریٹی کا بھی کوئی مسئلہ نہیں کہ مارگلہ میں چیک پوسٹیں موجود ہیں اور فیملی کے لیے ایک محفوظ سیر گاہ ہے بچوں کو فطرت سے روشناس کرانے کے لیے ضرور لانا چاہیے بس فطرتی سیر گاہ کا اصول مدِ نظر رہے کہ
یہاں سے کچھ ساتھ مت لائیے سوائے تصاویر کے اور کچھ چھوڑ کر مت جائیے سوائے نقشِ قدم کے
کافی دنوں بعد
یوں لگتا ہے اک جُگ بیت گیا ہے سُکھ اور فراغت کا سانس لیے ہوئے بس مستقل کام اور پھر ڈیرے پر آکر بے سُدھ سو جانا۔ کبھی ایسا بھی ہوا کہ پندرہ گھنٹوں کے بجائے آدھی چھٹی یعنی 12 ہی گھنٹے بعد آٹھ بجے رہائش پر پہنچ گئے تو بھی کبھی کمپیوٹر دغا دے جاتا اور کبھی گھر والوں سے بات کرنے کے علاوہ کچھ اور کھولنے دیکھنے کی ہمت ہی نہیں ہوتی کہ سارا دن کسی نا کسی بہانے یہی اسکرین ہی تو تکتے رہتے ہیں۔ رہ گئی خبریں تو ایک تو کوئی اچھی خبر ملنے کی امید ہی نہیں ہوتی اور دوسرا پاکستانیوں کو خود اب کچھ ٹی وی شی وی دیکھنے کی ضرورت نہیں اردنی، انڈونیشیئن، ملائیشین ہمدردی سے ‘ساوتھ انڈین بِنا کسی جزبات کے(وہ اپنے باپ کے مرنے کی اطلاع بھی مشینی انداز میں دیتے ہیں) اور یو پی‘ سی پی والے بناوٹی افسوس سے ساری کہانی بیان کر دیتے ہیں، ویسے بھی پاکستانی بھائیوں کے پاس آپس میں بھی بات کرنے کے لیے موضوعات کا سخت توڑا رہتا ہے۔
کل پرسوں دنیا کی مشہور گیس ٹربائن بنانے والے ادارے کا نمائندہ اپنی مشین کے بارے میں معلومات دے رہا تھا اسی دوران اس سے مختلف باتیں ہوتی رہیں اس نے فلورنس اور اس سے 80 کلومیٹر دور مساسہ ( انگریزی لکھنے کی ہمت نہیں ہے) میں اپنی فیکٹری اور شہر کی وڈیو بھی دکھائی باتوں میں ذکر چلا طیاروں کے انجن کا تو اس نے بتایا کہ بوئنگ کا پورا انجن (گیس ٹربائن) پانچ سے چھ گھنٹوں میں تبدیل کر دیتے ہیں اور اس کی وڈیو بھی دکھائی۔ اپنے ایک ساتھی نے کہا کہ “اسین وی کامرے وچ معراج دا ایہی حشر کردے ساں ایہی پھرتیاں تے ایئر فرانس نوں لے بیٹھیاں نیں“۔
اٹالیئن اپنے مزیدار انگریزی لہجے کے ساتھ کہانیاں سناتا رہا ساتھ ہی اپنی مِنی کوپر کو بھی مِس کرتا تھا کہ میں نے کبھی بھی تیز گاڑی نہیں چلائی لیکن اب سے پانچ ماہ پہلے ایک دن ایسے ہی ٹیسٹ کرنے کے لیے اپنی گاڑی کو ذرا تیز کیا تو وہ 210 پر پہنچ گئی لیکن ساتھ ہی جھماکا بھی ہوا اور پولیس والے نے مجھ سے لائسنس لیکر چھ ماہ بعد کی تاریخ دے دی اب سوائے سائیکل کے میں کچھ اور نہیں چلا سکتا!
یہ سُن کر مجھے اپنا وطن بڑا یاد آیا۔