3 تبصرے

مبارکباد

*

*

*

*

سب ساتھیوں کو عید الاضحٰی کی

خوشیاں بہت بہت مبارک ہوں

***      * *

*

*

6 تبصرے

روپیہ اور ڈالر

آج ڈالر کی قیمت اوپن ماکیٹ میں 82 روپے ہوگئی جو پھر ایک ریکارڈ ہے گویا آج کل پاکستان ریکارڈ توڑنے پر لگا ہوا ہے اور ان ٹوٹے ہوئے ریکارڈوں کا بِل پاکستانی بھر رہے ہیں۔
ہمارے “قابل“ ترین وزیرِ خزانہ وڈی سرکار کی طرف جارہے تھے تو جاتے جاتے بھڑک مارگئے کہ لگ پتا جائے گا ان لوگوں کو جو آجکل ڈالر جمع کر رہے ہیں جب ڈالر کی قیمت گرے گی تو یہ اپنے نصیب کو کوسیں گے۔( ان کے خیال میں جب وہ امریکہ سے جھولی بھر کے ڈالر لائیں گے تو ایک روپے کے دو ڈالر بکیں گے)
پہلے تو پھِر بھی امید تھی کہ دنیا کی سٹاک مارکیٹس نیچے کی جانب تھیں تو چلو نئے پیسے نا آئیں تو کم از کم یہاں سے سرمایہ تیزی سے واپس تو نہ جائے گا لیکن آج جو تیزی کے انجکشن لگے ہیں انٹرنیشنل مارکیٹس میں تو اب پاکستانی مارکیٹ کے بچ نکلنے کی رہی سہی امید بھی ختم ہورہی ہے۔ جب دنیا بھر کی اسٹاک مارکیٹیں گررہی تھیں تو کچھ تبصرے ہوئے تھے خوشی کے لیکن شاید بھائی لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم جنکے در کے بھکاری ہیں انکی ہمیشہ خیر مانگنی چاہیے۔ ہمارے پالن ہار امریکہ، یورپی یونین، جاپان وغیرہ ہی ہیں چاہے اقتصادی امداد ہو چاہے ہماری برائے نام برآمدات کے گاہک اگر ان کی معیشت کو جھٹکے لگے تو ہماری ننھی سی جان کا کیا ہوگا؟ گویا مرغی کے لیے تو تکلے کا گھاؤ  ہی بہت ہے۔
دوسری طرف ابھی تک ہماری ساری کابینہ اسی فیوڈل وفاداری کی ماری ہوئی ہے نام کو پروفیشنل ازم نہیں کہ جنکی وجہ سے پاکستان کی معیشت کا تیاپانچہ ہوا ہے ان سے اس کا ہرجانہ لے سکیں۔ امریکہ سے F-16 کا سودا ہوا تھا جن پر امریکی حکومت ہی نے پابندی لگائی اور پھر پاکستان سے اپنے گوداموں کا کرایہ تک وصول کیا کہ صاحب یہ طیارے ہمارے گودام گھیرے کھڑے ہیں ہرجانہ دو۔ ادھر ہم ہیں کہ ان کی جنگ لڑ رہے ہیں ان کے سپاہیوں کے بجائے اپنے فرزند آگے کرتے ہیں پھر انکی جھڑکیاں بھی کھاتے ہیں بھائی سیدھے سبھاؤ 1984 سے ابتک  کا بِل بناؤ۔ ہماری معیشت، ہمارا سماج، ہماری صنعت، ہماری تجارت اور ہماری سیاحت کیا تباہ نہیں ہوا

ان سب کے پیسے وصولو
جو چلے گئے ہیں انکے نام کی فاتحہ دلواؤ

اور باقیوں کو پلاؤ کھلواؤ ۔

دیکھو یہ خود کش حملے اور دھماکے بند ہوتے ہیں یا نہیں اور آئندہ کے لیے بھی سب کو کان ہوجائیں گے چاہے امریکہ ہو یا لیبیا،

سعودیہ ہو یا ایران کہ بھائی ان کے ہاں جاکر اپنا پھڈا کرو گے تو ٹوٹ پھوٹ کے پیسے دینے پڑیں گے۔ جو جان نثار کرتے ہیں وہ قوم کے بچے ہوتے ہیں اور قوم کے بچوں کی کوئی بات نہیں ہم اور پیدا کرلیں گے قوم آجکل لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے ویسے ہی جاگتی رہتی ہے گویا جاگ رہا ہے پاکستان اور جب راتوں کو جاگنا ہے تو کیوں نہ کوئی رونق میلہ کریں دن کو تو ویسے ہی سونا ہے کہ بجلی نہیں ہے کام دھندے ٹھپ پڑے ہیں پھر ڈالر تو مہنگا ہی ہوگا۔

4 تبصرے

F-9 پارک

چلیں آج ٹاہلی کے نیچے بیٹھتے ہیں
ساری فکریں سارے جہاں کے دکھ بھول بھال کر
F-9 پارک میں ابھی تک تعمیراتی کام چل رہا ہے پھر بھی کچھ نا کچھ جگہ سکون کے قابل مِل ہی جاتی ہے۔
بچوں کے لیے بہت سارے جھولے بن رہے ہیں، واکنگ ٹریک اور گھاس کے تختے پھولوں سے سجائے جارہے ہیں
ایک دفعہ آپ یہاں داخل ہوجائیں واقعی سارے جہاں کی فکریں کہیں دور چلی جاتی ہیں۔

4 تبصرے

حضرت نوح کی گمشدہ امت

ساتھی منیر احمد طاہر نے کافی عرصے سے گھومتی کالکی اوتار والی میل کو اپنے بلاگ میں موضوعِ بحث بنایا ہے۔ پنڈت وید پرکاش کے ساتھ  ہی کچھ کتابیں مسلمانوں کی طرف سے بھی لکھی گئیں جنمیں ہندوؤں کو حضرت نوح کی گمشدہ امت ثابت کرنی کی کوشش کی گئی ہے اور یہ دور کی کوڑی کوئی ابھی کی نہیں بلکہ گاندھی جی کے دور میں لائی گئی ۔ ہندو دیو مالا اور اساطیر میں موجود منو اور اس کی کشتی کو حضرت نوح کے سیلابِ عظیم سے جوڑا گیا۔ سری لنکا کو ارارات ( جہاں کشتیِ نوح آکر ٹھہری)  سے تعبیر کیا گیا اور اب پنڈت وید پرکاش  کی کالکی اوتار والی بات پر اگر یقین کیا جائے تو اس سے تو یہ بھی ثابت ہو رہا ہے کہ
1) ھندو مت ایک آسمانی مزہب ہے۔
2) رگ وید آسمانی کتاب/ کتب ہیں۔
3)  ہندو اہلِ کتاب ہیں۔
4) انکے اوتار اللہ کے پیغمبر تھے۔
کیا کہتے ہیں (نِٹ ) علماء بیچ اس معاملے کے؟؟

2 تبصرے

8 اکتوبر 2005 کے زلزلہ زدگان

8 اکتوبر کے زلزلے کو گزرے تین سال ہونے کو ہیں جو پاکستان کے ہزاروں خاندانوں کو ہلا گیا۔
جانے والوں کو کون لوٹا سکتا ہے ؟ زخمیوں کے دکھوں کا کون مداوا کرسکتا ہے؟
 ہاں ہم جو کرسکتے ہیں  وہ یہ کہ ان کے کندھے کے ساتھ کندھا ملائیں۔
 انہیں اپنے ہونے کا احساس دلائیں
 ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کریں
8 اکتوبر کی شام کو مارگلہ ٹاورز کے سامنے اسی سلسلے کی ایک تقریب ہے تمام ساتھیوں سے شرکت کی اپیل کیجاتی ہے۔ 

10 تبصرے

Eid Mubarek

  سعودیہ میں شوال کا چاند نظر آگیا ہے اس لیے ان تمام احباب کو جو سعودیہ اور خلیجی ریاستوں میں مقیم ہیں اور ان تمام احباب کو بھی جو سعودی عرب کے ساتھ عید مناتے ہیں ( یورپ اور امریکہ میں مقیم ) تمام دوستوں کو اس وقت چاند رات کی اور کل عید کی خوشیاں مبارک ہوں۔

( جانے کیا مسئلہ ہے کہ تصاویر پوسٹ نہیں کر پا رہا ہوں اسی بہانے سادگی سے عید مبارک )    

4 تبصرے

Haunted City

پرسوں دن کو میری پاکستان واپسی ہوئی اور اس رات جب سپر مارکیٹ اسلام آباد پہنچے تو عجیب ہو کا عالم طاری تھا زیادہ تر دکانیں بھی بند ایسا لگا کہ بہت دیر ہوگئی ہے حالانکہ ہم لوگ تراویح کے بعد نکلے تھے اور عید سے قبل یا ماہ رمضان میں تو یہاں ٹریفک جام رہتی ہے آج معاملہ الٹ دکھائی دے رہا تھا اکا دکا گاڑیاں انمیں بھی نیلی بتی والی زیادہ اور لوگوں میں بھی عام لباس میں سیکوریٹی کے لوگ ہاتھوں میں پکڑے ریڈیو کی وجہ سے صاف پہچانے جارہے تھے۔ پاکستان سے جب چھٹیاں گزار کر سعودیہ جایا کرتے تھے تو پہلے دن یونہی کرفیو جیسا سماں محسوس ہوتا تھا کہ کہاں پاکستان میں بندہ سے بندہ چھلتا ہے اور کہاں ینبع اور جدہ میں سنسان گلیاں۔ آج اسلام آباد کی رونق اسی طرح غائب ہوگئی ہے۔
 پہلے اسلام آباد ایسے سنسان  تو عیدین والے دن ہی ہوا کرتا تھا لیکن اب تو گویا رمضان کا آخری عشرہ نہیں بلکہ عاشورہ چل رہا ہے۔ دھشت کی فضاء اب صاف محسوس ہوتی ہے پولیس اور سیکوریٹی والے اس کا  سب سے زیادہ شکار ہیں یہ تناؤ کی کیفیت اگر زیادہ دیر تک جاری رہی تو بھی خطرناک ہے۔
حیرت کا مقام یہ بھی ہے کہ کسی بھی جید یا صفِ اول کے عالم کی جانب سے ان دھماکوں کی اور خود کش حملوں کی اس طرح سے مخالفت نہیں کی جارہی جتنی موثر طریقے سے یہ طبقہ کرسکتا تھا ۔ الدعوۃ والے حافظ محمد سعید صاحب نے یہاں بھی پہل کی اور ان دھماکوں کو اسلام کیلیے فتنہ قرار دیا میں انتظار کر رہا ہوں کہ کب انکے متعلق اعلان ہوتا ہے کہ حافظ محمد سعید امریکی ایجنٹ ہیں اور واجب القتل ہیں۔ یاد رہے کہ نوے کے عشرے میں جب بھارتی طیارہ ہائی جیک کر کے طالبان کے افغانستان لیجایا گیا اور اس کے مسافروں کی رہائی کے بدلے جن لوگوں کو بھارت سے چھڑوایا گیا حافظ محمد سعید انمیں سے ایک ہیں۔
ملک کے طول و عرض میں پھیلے مدرسوں اور ان کے متولیوں سے تو آجکل امید نہیں کیجاسکتی کہ کوئی ایسا ویسا بیان دیکر اس پِیک کے سیزن کو خراب کریں  یہ وقت تو ختم قرآن کی محافل شبینہ سجانے اور صفوں میں چندے کے لیے رومال گھمانے کا ہے سوات، باجوڑ اور اسلام آباد کے چراہ گاؤں کے یتیموں اور بیواؤں کے نوحے کے لیے تو سارا سال پڑا ہے۔ صرف رمضان کے مہینے میں جو صدقات و خیرات بانٹے جاتے ہیں انکی مقدار باقی سارے سال کے مقابلے میں دوگنی تگنی تو ہوتی ہوگی اس لیے اس سیزن کو کون خراب کرے اور جنکی مساجد اور امام بارگاہوں میں فرقہ ورانہ ٹارگٹ کلنگ کے دھشت گرد پناہ لیتے ہوں اور جان کے خوف سے جو انکے خلاف ایک لفظ نہ بولیں انکا کیسا ایمان کا استحکام اور کیسا کلمہ حق؟
 میری تو یہ ذاتی رائے ہے کہ کراچی کے علماء کنونشن میں دھماکے سے بیسیوں “ پائے کے علماء“ جان بحق ہوگئے مگر بعد والوں نے اس حادثے کے ذمہ داروں کے خلاف نہ تو پرزور مہم چلائی نہ حکومت پر زور ڈالا یہ ویسا ہی رویہ ہے جیسے فارمی مرغیاں ڈربے میں قصائی کا ہاتھ دیکھ کر شور مچاتی ہیں اور انمیں کی جب ایک مرغی کو یہ ہاتھ لیکر غائب ہوجاتا ہے تو دڑبے کی باقی مرغیاں شکر کرتی اور خاموش ہوجاتیں ہیں۔
ہمارے یہ علماء سوء  بھی اپنی نک سک اور عجیب و غریب گیٹ اپ کیے صرف اپنی سلامتی کی دعائیں مانگ رہے ہیں۔
یا شاید میں ہی بھٹک گیا ہوں ؟؟؟؟؟؟؟

1 تبصرہ

ایک نقطہ نظر یہ بھی

منسلکہ ربط پر جو ویڈیو موجود ہے شاید زیادہ دیر تک نہ ٹک سکے۔
الجزیرہ ٹی وی سے خال ہی ایسا مواد نشر ہوتا ہے ورنہ وہ بھی تصویر کا ایک رخ ہی دکھاتے ہیں۔
خاتون کی خطابت اور مولانا کا رٹا رٹایا جواب کہ تم ملحدہ ہو۔
کیا آئینہ دکھانے والے سب ہی ملحد ہوتے ہیں؟
http://switch3.castup.net/cunet/gm.asp?ai=214&ar=1050wmv&ak=*

 

تبصرہ کریں

برطانوی’بابائےاردو‘ رالف رسل نہ رہے

ایک گورا چٹا معمر شخص مہمانِ خصوصی کی کرسی پر رونق افروز تھا۔ یہ محفل دوہا کے شیرٹن ہوٹل میں عالمی اردو مشاعرے کے نام پر سجائی گئی تھی اس میں کسی انگریز کو مہمانِ خصوصی بنا دیکھ کر ہم نے یہی سوچا کہ کوئی سپانسر شپ کا چکر ہوگا لیکن جب متعارف ہوئے تو اپنے خیالات پر شرمندگی ہوئی۔ سر رالف رسل کے اندازِ تقریر اور عالمانہ موشگافیوں سے اہلِ زبان بھی شرما جائیں۔ دنیا بھر سے اردو کے چیدہ چیدہ نابغے اکٹھے کرنے والے مصیب الرحمان صاحب پہلے ہی چلے گئے اور ان مشاعروں کو لوٹنے والے احمد فراز بھی رخصت ہوئے اور آج بی بی سی نے رالف رسل کے کوچ کی بھی خبر سنادی ہے۔
بی بی سی نے لکھا ہے؛
“ برطانیہ میں بابائے اردو کہلانے والے اردو زبان کے استاد رالف رسل نوے سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔ پروفیسر رسل برطانیہ میں اردو زبان سے وابستگی کی وجہ سے جانے جاتے تھے۔
انہوں نے اپنی زندگی اردو زبان میں تحقیق اور درس و تدریس میں گزاری۔ رسل انیس سو اٹھارہ میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے انڈیا اور پاکستان میں کافی وقت گزارا تھا۔

ان کی تصانیف میں ’تھری مغل پوئٹس‘ جو انہوں نے خورشید الاسلام کے ساتھ مِل کر لکھی تھی، ’غالب: لائف اینڈ لیٹرز‘ اور ’اے نیو کورس ان اردو اینڈ سپوکن ہندی‘ شامل ہیں۔ وہ انیس سو انچاس سے انیس سو اکیاسی تک جامعۂ لندن میں اردو زبان کی تعلیم دیتے رہے۔

رالف رسل سولہ سال کی عمر میں کمیونسٹ پارٹی کے رکن بن گئے تھے۔ انہوں نے انیس سو چالیس میں جامعۂ کیمبرج میں تعلیم مکمل کی اور دوسری جنگ عظیم کے شروع ہونے پر فوج میں بھرتی ہو گئے۔ اس دوران انہوں نے ساڑھے تین سال انڈیا میں گزارے۔

رالف رسل نے اپنی ویب سائٹ میں لکھا ہے کہ انہوں نے انڈیا میں فوج کی نوکری کے دوران اردو سیکھی۔ لیکن یہ نوکری کی ضرورت نہیں تھی۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے اردو اس لیے سیکھی کہ وہ ان لوگوں کے کام آ سکیں جن کی خدمت کمیونزم کا مقصد تھا۔ انہوں نے کہا کہ وہ فوج میں رہتے ہوئے ان سپاہیوں میں سیاسی شعور بیدار کرنا چاہتے تھے جنہیں بھرتی ہی اسی لیے کیا گیا کہ وہ ’غیر سیاسی‘ تھے۔

رالف رسل نے ویب سائٹ پر لکھا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کچھ سپاہیوں نے نہ صرف کمیونسٹ پارٹی کے رسالے پڑھنا شروع کر دیے بلکہ چندہ بھی دینے لگے۔ جنگ کے خاتمے کے بعد انہوں نے اردو اور سنسکرت میں ڈگری حاصل کی۔ “

رالف رسل اپنی سائٹ پر اپنی آپ بیتی لکھنے کے بارے میں تحریر کرتے ہیں؛

"Some people think that only famous and important people should write their autobiographies. I’m not famous, except within the small circle of people who study Urdu, and among those of you reading this, there will be some who don’t even know what Urdu is. I’m not important either, in the sense in which ‘important’ goes along with ‘famous’, though I may be important to a small number of people who know me personally. So why am I writing this?

"First, because I think that every human being is important, and that includes me. And second, because anyone who has thought seriously about how they want to live – what they want to live for, if you like – could, and in many cases should, write their autobiography. Whether they do so or not, they are likely to be interested in the experience of others who have lived like that, and can learn things valuable to them through reading about it. So that is why I am writing mine.

"I have recorded all that I regard as significant in my life experience and haven’t regarded anything as too ‘private’ to be written about. My belief, which I don’t expect others to share, is that there ought to be no subject whatever which mature adults should not be able to talk about to each other.”

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

8 تبصرے

جیے زرداری

دنیا بھر کے ملازمت پیشہ افراد کسی اور بات پر متفق ہوں یا نہیں تنخواہ کے متعلق ہمیشہ یک رائے ہوتے ہیں کہ بڑھنی چاہیے۔
پاکستانی بھی چاہے کہیں کام کرتے ہوں اسی جستجو میں ہی رہتے ہیں کہ تنخواہ بڑھتی رہے۔
ہر سال چاہے بجٹ ہوں یا اداروں کے سالانہ اگریمنٹ مزدوروں اور ملازمین کی ایک ہی خواہش ہوتی ہے "تنخواہ میں اضافہ”
مزدور یونین اور دیگر پریشر گروپس دھرنے دیتے ہیں، ہڑتالوں کی دھمکیاں، احتجاج، پہیہ جام،ڈنڈے، قربانیاں، جلاؤ گھیراؤ جانے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں پھر کہیں جاکر مرادیں بَر آتیں ہیں لیکن یہ سارے اضافے اپنے ملک کے اندر کام کرنے والوں کے لیے ہوتے ہیں۔
پاکستان کی حکومت دنیا بھر میں منفرد مقام رکھتی ہے اسے تارکین وطن کی تکلیفوں کا اندازہ ہے اور مزدوروں خصوصاً خلیج میں کام کرنے والوں کا تو حد سے زیادہ خیال رکھتی ہے۔
سن تیرانوے ٩٤ میں مجھے یاد پڑتا ہے کہ سعودی ریال سات روپے ٣٥ پیسے کا تھا جب پہلی دفعہ سعودیہ آئے تھے۔ ہماری ملک سے نکلنے کی دیر تھی بینظیر نے ہماری تنخواہ آٹھ دس ہزار بڑھادی۔ پھر اپنے نوازشریف آئے یہ تو تھے ہی بیرونِ ملک پاکستانیوں کے مداح انہوں نے جہاں اورسیز پاکستانیوں کے  لیے رہائشی سوسائٹیاں( جنکے پیسے ادا کرنے کے باوجود مالکان ابھی تک اپنے پلاٹوں کی زیارت سے محروم ہیں) اور سبز چینل شروع کیے وہیں جو پاکستانی مزدور گلف میں دس ہزار کماتا تھا اس کی تنخواہ بڑھا کر پندرہ ہزار کردی۔
جرنیلی حکومت نے جہاں ملک کے اندر عوام کو دبائے رکھا وہیں تارکینِ وطن کے ساتھ بھی زیادتی روا رکھی لیکن نہ نا کرتے ہوئے انہوں نے بھی تنخواہ اٹھارہ ہزار روپے تک بڑھا ہی دی۔
اب مزدور دوست حکومت آئی ہے انہوں نے چار پانچ ماہ میں ہی چھلانگیں لگوادیں ہیں آج کل ہزار ریال کمانے والے مزدور کو بائیس ہزار پاکستانی نصف جنکے گیارہ ہزار روپے ہوتے ہیں کی خطیر رقم مل رہی ہے
پھر بھی ناشکرے تارکینِ وطن اٹھتے بیٹھتے زرداری کی برائیاں کرتے ہیں
ہے کوئی دنیا میں ایسی حکومت جو وطن میں بیٹھے لوگوں کو کچھ دے یا نا دے تارکینِ وطن کی اجرتوں میں اضافہ کرتی جائے۔
اسی حساب سے چلتے رہے تو وہ دن دور نہیں جب سارے تارکین کروڑوں روپے میں اجرتیں وصول کریں گے

جیے زرداری
سدا جیے

(چھوڑیں سب اور اسلام آباد کی ان محنت کش خواتین کی تصاویر دیکھیں تبصرہ آپ کا حق ہے۔)