6 تبصرے

اپنے بارے

بارے کچھ اپنے بارے میں لکھا جائے تو ساتھی کہنے لگے کہ اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے کہ تم کون ہو۔ پھر دوسرے دانشمند نے آبِ زر سے لکھے جانے کے قابل اعتراض کیا کہ “ جو تم کہو گے اس کی بھی اہمیت نہیں ہے“
تو قارئین ضروری نہیں کہ کچھ اہم ہو تو ہی لکھا پڑھا سُنا سُنوایا جائے لیکن بات یہ ہے کہ میں کون ہو اگر آپ نہیں جانتے تو بتانے کا فائدہ نہیں اور اگر جانتے ہیں تو بھائی پھر نئے سرے سے بتانے کا فائدہ کیا؟
اس کنج کو سجانے کا مقصد محض اتنا ہے کہ دور دیس میں بسنے والے اپنے دوستوں کو رنگوں کے جگنو اور روشنی کی تتلیاں نا سہی تو بھی پرانے وقتوں کی بو باس ہی بھیجی جائے کہ جب میں یہاں سے دور تھا تو جاڑے کی راتوں اور گرمیوں کی طویل دوپہروں میں ناسٹلجیا کے کوہ نِدا سے صدائیں آتی تھیں نتیجہ ۔۔۔۔۔۔ میں نے پلٹ کر دیکھا اور پتھر کے دور میں واپس آگیا۔
جب ہم پلٹ آتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہمارے پیچھے ہمارے چاہنے والے بھی تمام لَد گئے ہیں یا انہوں نے کہیں اور دل لگا لیا ہے، کہ ہم بھی تو جاکر اپنی خوشیوں اور رنگوں میں کھو گئے تھے اور ان کی آوازوں سے منہ پھیر لیا تھا۔
دیکھتے ہیں کہ باقاعدگی بر قرار رہ پاتی ہے یا نہیں بساط بھر کوشش تو کروں گا۔

بلاگ کا نام سراب کیوں رکھا؟
بلاگ کا نام سراب سے بہتر سوجھ ہی نہیں رہا تھا (جتنی بندے کی سوجھ بوجھ ہوگی اتنی ہی سوچے گا)۔
دور دیس میں جا بسنے والے لوگ جب محنت مشقت کر کے تھوڑے سکھی ہو جاتے ہیں تو انہیں پلٹ کر دیکھنے کا خیال آتا ہے اس سمے انہیں اپنی ساری مشقتیں اور کلفتیں بھول جاتیں ہیں وہ دکھ اور مصیبتیں جو ماضی میں اپنے دیس میں اٹھائی ہوتی ہیں وہ سب ہیچ ہوجاتی ہیں میڈیا اور اخبارات اس اگنی پر مزید تیل چھڑکتے ہیں کہ وطن میں اب سب ہرا ہرا ہی ہے ساون کے اندھے کو گھر لوٹ آنا چاہیے۔ یہ پردیسی اپنے وطن کو سال دو سال بعد کی تعطیلات میں اسی طرح سے دیکھتے ہیں جیسے جون جولائی کی جلتی بلتی دوپہر میں صحرا کو ایرکنڈیشنڈ گاڑی کے شیشوں سے دیکھا جائے تو ہر منظر سہانا سا لگتا ہے اور بندہ اپنے آپ کو “میکناز گولڈ“ کے لینڈ سکیپ میں محسوس کرتا ہے۔ وطن میں اپنی تعطیلات کے دوران دوستوں رشتہ داروں سے بھی کسی نا کسی تقریب کے حوالے سے ملاقات ہوتی ہے اس لیے سبکو سٹار پلس کے ڈراموں کی طرح ہر وقت ہنستا گاتا محسوس کرتے ہیں۔ پردیسی کو یوں لگتا ہے گویا میرے یہاں سے جانے کی دیر تھی اور جیسے میرے دِن پھرے ہیں اسی طرح یہاں بھی سب کی موج ہورہی ہے۔
پردیس میں واپس جاکر اسی ناسٹلجیا کا دورہ وقتًا فوقتًا پڑتا ہی رہتا ہے۔ پردیس میں کانٹا بھی چبھے تو وطن کی سُنبل شدت سے یاد آنے لگتی ہے۔ پردیس میں بسنے والے رفتہ رفتہ اس نشے کے عادی ہوجاتے ہیں ٹھنڈے سانس کھینچتے ہیں اور گزرے سمے میں لوٹنے کی سعی کرتے ہیں اور بقول مشتاق احمد یوسفی
“ ان کا اصل مرض ناسٹلجیاء ہے- زمانی اور مکانی، انفرادی اور اجتماعی- جب انسان کو ماضی، حال سے زیادہ پُرکشش نظر آنے لگے اور مُستقبل نظر آنا ہی بند ہوجائے تو باور کرنا چاہیے کہ وہ بوڑھا ہوگیا ہے- یہ بھی یاد رہے کہ بُڑھاپے کا یہ جوانی لیوا حملہ کسی بھی عمر میں —– بالخصوص بھری جوانی میں —– ہوسکتا ہے- اگر افیم یا ہیروئن دستیاب نہ ہو تو پھر اسے یادِماضی اور فینٹسی میں، جو تھکے ہاروں کی آخری پناہ گاہ ہے، ایک گونہ سر خوشی محسوس ہوتی ہے۔ جیسے کچھ حوصلہ مند اور جفا کش لوگ اپنے زورِ بازو سے اپنا مستقبل بناتے ہیں، اسی طرح وہ زورِتخیل سے اپنا ماضی آپ بنا لیتا ہے۔ یادوں کا سِر شور دریا دشتِ امروز میں بہتے بہتے خواب سراب کے آبِ گم میں اتر جاتا ہے۔“
وطن سے دور جابسنے والوں کو بھی اسی سراب پر حقیقت کا دھوکہ ہوتا رہتا ہے جسکے زیرِ اثر بجائے یکسوئی سے آگے بڑھنے کے وہ ہر لمحے واپس لوٹنے کی سعئ میں لگ جاتے ہیں۔ اُن چھوٹے چھوٹے مسائل کو واپسی کا بہانہ بناتے ہیں جن پر کسی نہ کسی صورت قابو پایا جاسکتا ہے- واپس آجائیں تو اپنے آپ کو پھر دلدل میں گھِرا ہوا پاتے ہیں۔
میرا ارادہ تھا کہ مجھےجو حالات در پیش رہے انکا احوال لکھتا رہوں اسی لیے بلاگ کا نام “ سراب “ رکھا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ہر شخص کے تجربات مختلف ہوتے ہیں اور اس حوالے سے نقطہ نظر بھی اپنا اپنا ہوتا ہے۔

 کیا فرض ہے کہ سب کو ملے ایک سا جواب
آؤ نہ ہم بھی سیر کریں کوہِ طُور کی

6 comments on “اپنے بارے

  1. جناب والا! آداب
    آپ کا بلاگ آج دیکھا، جی خوش ہوا
    ہم آپ کو اپنی جناب ابن صفی پر بنائی غیر تجارتی ویب سائٹ دیکھنے کی دعوت دیتے ہیں، پتہ ہے:

    http://www.wadi-e-urdu.com

    ریگل کے کتب فروشوں پر ہمارا ایک مضمون عنقریب شائع ہوگا۔ شمشاد نامی کتب فروش انتقال کرچکے ہیں

    خیر اندیش
    راشد اشرف

  2. رضوان بھائی!

    کراچی سے حیدرآباد کے سفر کے دوران آپ نے کوچ کے حادثے اور لوگوں کے زندہ جل جانے کا تذکرہ کیا
    یہ بات ہے اس دن کی جس دن سپر ہائی وے کے دوہرے ٹریک کا افتتاح ہوا تھا اور میں اتفاق سے اس بدنصیب کوچ کے پیچھے ہی ایک دوسری کوچ میں چلا آرہا تھا- وہ منظر آج تک ذہن ہر نقش ہے

    راشد

  3. آپ اردو محفل والے رضوان ہیں۔۔۔؟ محب بھائی کے دوست۔۔؟؟؟

  4. امن کیا یاد دلا دی اردو محفل اور پھر شمشاد، ظفری اور محب کی بیٹھکیں۔ شاندار وقت تھا اللہ محب اور ظفری کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

  5. ہائیںںںں آپ تو سچ مچ وہی ہیں۔۔۔ابھی آپ کا محفل والا انٹرویو پڑھا ہے۔۔اتنا اچھا لگا ناں 😦 آپ پھر پتہ نہیں کہاں غائب ہوگئے۔۔۔پھر میں نے بھی وہاں جانا چھوڑ دیا۔۔۔مجھے حیرت بس اپنی یاداشت پر ہورہی ہے۔۔۔سراب اور رضوان نور۔۔۔میں یہ دونوں نام بھول کس طرح گئی۔۔۔مجھے لگ رہا تھا کہ اردو محفل والے رضوان احمد ہیں۔۔۔نور یاد نہیں تھا۔

  6. بھائی رضوان!
    بھیا کہاں ہیں آپ
    ایک عرصہ بیتا آپ سے رابطہ ہوئے
    مجبورا خود ہی چلا آیا، اور اپنا ایک مضمون بھی آپ کی نذر کیا
    کیا آپ فیس بک پر بھی موجود ہیں ?

    حیدرآباد سندھ میں 25 برس گزارنے کے بعد 4 سال قبل، بادل نخواستہ کراچی منتقل ہوا ہوں

    خیر اندیش
    راشد اشرف
    کراچی سے

تبصرہ کریں